کرپٹو کرنسی، تعارف اور حقیقت

Share :

(بٹ کوائن (Bit Coin) اور ون کوائن (Onecoin) پر ایک نظر)

جس طرح انسانی زندگی میں مختلف تبدیلیاں اور نیرنگیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں؛ اسی طرح کائنات کا نظام اور چیزیں بھی ان تبدیلیوں سے دو چار اور متاثر ہوتی رہتی ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کسی شی کو دوام نہیں، مثل مشہور ہے “ہر کمالے را زوالے” ہر کمال کو زوال سے ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے۔

آجکل ہمارے ہاتھوں میں جو کرنسی کی شکل میں پیسے یا روپئے موجود ہیں؛ ان کی کہانی بھی بڑی عجیب اور ان پر آنے والی تبدیلیاں بڑی حیرت انگیز ہیں، نوع انسانی کے ابتدائی دور اور بعد کے ادوار میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب سونا چاندی اور روپئے پیسے کا بطور تبادلہ کوئی خیال تک نہ تھا، اس دور میں اشیاء کا تبادلہ اشیاء سے ہوتا تھا، چاول دیکر گیہوں لے لینا اور آٹا دے کر دودھ لے لینا ہی چیزوں کی خرید و فروخت کی مانی جانی شکل تھی، پھر ایک دور آیا کہ یہی تبادلہ سونے چاندی جیسی بیش قیمت دھاتوں سے ہونے لگا، انہیں کے ذریعے چیزیں خریدی اور فروخت کی جانے لگیں؛ لیکن بہت مدت نہیں گزری کہ خرید و فروخت کی دراز دستی نے سونے چاندی کے خول سے نکل کر ان سے بنے سکوں اور مختلف دھاتوں سے بنے پیسوں کی شکل اختیار کر لی۔

پھر ان کے بعد ایک ایسا بھی دور آیا جب لوگ سونے چاندی اور ان کے سکوں کو صرافوں کے پاس رکھ دیتے اور ان سے اس کی رسیدیں حاصل کرلیتے اور بوقت ضرورت رسید دکھا کر وہ سکے واپس لے لئے جاتے اور اگر کسی کو دینے کی ضرورت پیش آتی تو بعض فرزانے ایسا بھی کرتے کہ وہی رسید کسی اور کو دے دیتے اور وہ رسید دکھا کر صراف سے سونا لے لیتا، اور کبھی کبھی انہیں رسیدوں سے لوگ اشیاء کی خرید و فروخت کا معاملہ بھی کر لیتے، آہستہ آہستہ یہ سلسلہ عام اور دراز سے دراز تر ہوتا گیا، یہی وہ دور ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوٹوں کے آغاز کا ابتدائی زمانہ تھا اور جس کی اعلی ترین شکل اب ہمارے زمانے میں اس قدر عام ہے کہ اس کے خلاف سوچنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

کرنسی نوٹ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں اس میں ترقی ہوتی گئی یہ اپنی اصلیت یعنی “ثمن حقیقی” سے دور سے دور تر ہوتی چلی گئی، کسی زمانے میں ان کرنسیوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوا کرتا تھا، پھر ایک زمانہ آیا کہ انہیں ڈالر سے جوڑ دیا گیا اور ڈالر کے پیچھے سونا تسلیم کر لیا گیا تھا، گویا بالواسطہ ان کے پیچھے سونا موجود تھا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کرنسیوں نے ڈالر سے بھی اپنا دامن چھڑا لیا اور اب ہم جس کرنسی کے دیوانے ہیں اور جس کی دستیابی کے لئے مر مٹ رہے ہیں اس کا سونے چاندی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور سوائے اس کی کہ اسے قانونی طور پر خرید و فروخت کا ایک ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے اس کی حیثیت ایک کاغذ سے زیادہ نہیں۔

مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا “ہر کمالے را زوالے” کچھ انسانوں کو شاید یہ سکے اور کاغذی نوٹ بھی بوجھ معلوم ہو رہے تھے یا یوں کہہ لیجیے کہ کرنسی نے ایک نئی انقلابی کروٹ لی اور اب ایک ایسی کرنسی وجود میں آچکی ہے؛ جسے جیب میں رکھنے اور چور اچکوں سے محفوظ رکھنے کی فکر دامن گیر نہ ہو گی، اس کرنسی سے انسان اپنی تمام تر ضروریات کی تکمیل بھی کر سکے گا اور پیسوں، سکوں کے بوجھت سے بھی آزاد ہوگا، ذیل میں اسی کرنسی سے متعلق چند اہم معلومات فراہم کی جاتی ہیں امید کہ اس تحریر سے اس نومولود کرنسی کو سمجھنا آسان ہوگا۔

اس وقت تمام دنیا میں آن لائن کارو بار کا جو طوفان برپا ہوا ہے اور معیشت و تجارت میں جو زبردست ہلچل اور گہما گہمی پیدا ہوئی ہے شاید ماضی کے کسی زمانے میں پیدا نہیں ہوئی ہوگی، اسی ہلچل و طوفان نے ایک نئی کرنسی “کرپٹو کرنسی” (Crypto Currency) کے نام سے دنیا میں چند سال قبل متعارف کرایا ہے، اس کرنسی کا تصور پیش کرنے والے یا موجد کا نام “ستوشی ناکا موتو” (Satoshinakamoto) بتایا جاتاہے، یہ کوئی شخص ہے یا ادارہ اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ کرۂ ارض پر کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو ستوشی ہونے کی دعویدار ہیں، بہر کیف دعوی کرنے والے ہوں یا کوئی بھی شخص جو بھی ہو اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ عصر حاضر کا ذہین ترین انسان ہے۔

کرپٹو کرنسی کی حقیقت بس یہ ہے کہ یہ ایک ڈیجیٹل اور نظر نہ آنے والی ایسی کرنسی ہے جسے نہ ہاتھوں میں لیا جاسکتا ہے نہ جیب میں رکھا جا سکتا ہے، گویا باہری دنیا میں اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے، کمپیوٹر کی دنیا تک ہی یہ کرنسی محدود ہے، جو اکاؤنٹ ہولڈر کے اکاؤنٹ میں عددوں اور الفاظ کی شکل میں موجود رہتی ہے، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان اس سے اپنے وہ تمام کام پورے کر سکتا ہے جو ہاتھوں میں پکڑے جانے والی اور جیبوں میں رکھی جانے والی کرنسی سے کرنا ممکن ہے، بآسانی بس یوں سمجھئے کہ جیسے ڈیبٹ

کارڈ میں حقیقتا کچھ ہوتا نہیں ہے مگر اس کے ذریعے کارڈ ہولڈر اپنی ضروریات خرید کر اکاؤنٹ میں موجود بیلنس یا بینک سے ادھار لے کر قیمت ادا کر سکتا ہے ایسے ہی اس کرنسی سے بھی سارے معاملات اخاونٹ اور خارڈ سے انجام دییے جاسکتے ہیں۔

اس کرنسی کی متعدد قسمیں اور اکائیاں آن لائن مارکیٹ میں آچکی ہیں، مگر اس کی سب سے قیمتی اور مشہور ترین کرنسی بٹ کوائن (Bit Coin) اور ون کوائن (Onecoin) ہیں، ان کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا کی موجودہ کوئی کرنسی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، آپ کو شاید حیرت ہو کہ ایک بٹ کوائن کی قیمت آٹھ لاکھ روپئے سے متجاوز جبکہ ایک ون کوائن کی قیمت تیرہ سو روپے زائد ہے۔

مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ اس کرنسی پر کسی ایک شخص یا ملک یا بینک کا قبضہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایک شخص یا بینک یا کمپنی اس کو کنٹرول کرتی ہے، بلکہ یہ لوگوں کے تعامل سے جاری اور قائم ہے، اسے کوئی بھی شخص یا ادارہ بنا سکتا ہے، کرپٹو کرنسی کی اصطلاح میں اس کے بنانے کو مائننگ (Mining) کہا جاتا ہے، جس کا لفظی ترجمہ ہے “کان کھودنا” یعنی جس طرح زمین سے کانیں کھود کر اس کی تہ سے بیش قیمت چیزیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح نہایت طاقتور اور خاص قسم کے پروگرامنگ والے کمپیوٹر اور مسلسل بجلی کے ذریعے مخصوص الفاظ اور نمبرات سے اس کی بناوٹ عمل میں آتی ہے، شروع شروع میں اس کی مائننگ بہت آسان تھی، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا اور قیمت بڑھتی جاتی ہے اس کی مائننگ مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسی ایک محدود تعداد (دو کروڑ دس لاکھ) ہی بنائے جا سکتے ہیں اور اتنے کوائن بنانے کے لئے 2150 ء تک کا وقت لگے گا، اس سے پہلے یہ سکے مکمل نہیں کئے جاسکتے، اس کی مائننگ کرنے والوں کو بطور انعام بٹس ہی دیئے جاتے ہیں جسے وہ گاہکوں سے بیچ کر نفع کماتے اور سسٹم کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کرنسی کی جتنی خرید و فروخت ہوتی ہے یا جو بھی معاملات اور ٹرانزکشن ہوتے ہیں وہ ہر دس منٹ میں ایک مخصوص جگہ محفوظ ہوجاتے ہیں اس پورے ٹرانزکشن کے مجموعے کو بلاکس (Blocks) کہا جاتا ہے، اس کرنسی کو گرچہ ابھی عام قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے تاہم متعدد ملکوں نے اپنے باشندوں کے لئے اسے لیگل قرار دے دیا ہے اور وہاں کے لوگ اس سے اپنے کام انجام دے رہے ہیں جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں اس کے اے ٹی ایم ATM بھی لگائے جاچکے ہیں بلکہ راقم الحروف کی دانست میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے یہاں اسے ابھی قبول نہیں کیا گیا ہے مگر وہ اسے خریدنے کی وجہ سے بہت سے کام اسی سے کر رہے ہیں۔ اس کرنسی کے متعدد فائدے بتائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہی اس کی مہنگائی کے اسباب ہیں، یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق چند دہائیوں میں یہی کرنسی عالمی کرنسی ہوگی۔ اس کے فوائد مندرجہ ذیل ہیں:

1 اس کرنسی کے ذریعے آدمی ان بڑی بڑی کمپنیوں سے سامان خرید سکتا ہے جو بٹ کوائن یا ون کوائن میں حصہ دار ہیں۔

2 اس کرنسی کے ذریعے پوری دنیا میں کسی بھی شخص کو اپنے اکاؤنٹ سے بغیر کسی کمپنی یا بینک کو واسطہ بنائے رقم منتقل کی جا سکتی ہے۔

3 رسد کی کمی اور طلب کی زیادتی یعنی کوائن کی کمی اور خریداروں کی کثرت کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھتی رہتی ہے اور اس طرح آپ کی کرنسی مہنگی ہوتی جاتی ہے۔

4 اگر آپ خود بٹ کوائن یا ون کوائن سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں تو بڑھی ہوئی رقم کے مطابق بیچ سکتے ہیں اور اس طرح آپ کو فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے۔

5 آپ جب چاہیں اپنی کرنسی کو ملکی کرنسی میں تبدیل کرا سکتے ہیں۔

6 اس کرنسی کو نہ کوئی چرا سکتا ہے نہ ہی غائب کر سکتا ہے، نیز اس سے ٹرانزکشن اس قدر آسان ہے کہ گھر بیٹھے انٹر نیٹ سے ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔

7 چونکہ اس کا تعلق کسی بینک یا ادارہ سے نہیں ہے اس لئے دوسرے کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے کے لئے بہت ہی کم رقم لگتی ہے۔

8 چونکہ یہ کرنسی decentralised ہے اس لئے اس کرنسی کو کوئی ملک نہ بند کر سکتا ہے اور نہ ہی ہائک کر سکتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے ملک میں جاری نہ کرے جیسا کہ ہندوستان وغیرہ میں ہے۔

اس موقع پر یہ واضح کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ جہاں کرپٹو کرنسی کے اس قدر فائدے ہیں وہیں کچھ نقصانات بھی ہیں اور پھر دنیا کی کونسی ایسی چیز ہے جس کے دونوں پہلو نہ ہوں؟ چنانچہ اس کرنسی لینے کا ایک نقصان یہ ہےکہ چونکہ اسے اپنے ہاتھ یا جیب میں رکھا نہیں جاسکتا ہے اور صرف انٹرنیٹ ہی کی ذریعے اس کا استعمال ممکن ہے؛ اس لئے آپ عام لوگوں سے کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی بوقت ضرورت ہر کس و ناکس سے لین دین کا معاملہ کر سکتے ہیں۔

دوسرا نقصان یہ ہے کہ چونکہ یہ ڈیجیٹل چیز ہے اگر بالاتفاق بیک وقت تمام ڈیجیٹل سسٹم فیل ہو جائے یا کسی ظالم طاقتور کا غاصبانہ قبضہ ہو جائے تو آپ کی لگائی رقم بالکل ختم ہو سکتی ہے

تیسرا نقصان یہ ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے اسے لیگل نہیں کیا ہے وہاں کا باشندہ اگر اسے لیتا ہے اور کوئی بات پیش آجاتی ہے تو وہ اپنے ملک میں استغاثہ نہیں کر سکتا ہے ہاں دوسرے ملک سے چانس پھر بھی رہتا ہے۔

چوتھا یہ کہ جس طرح اس کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اندیشہ ہے کہ کبھی بہت کم یا بالکل کم ہوجائے اور آپ کو نقصان ہوجائے۔

کرپٹو کرنسی کے بارے میں مذکورہ بالا چار نقصانات متوقع اور ممکن ہیں؛ گرچہ ابھی تک ایسا کچھ ہوا نہیں ہے اور قرائن و آثار سے بھی اس کی مضبوطی اور استحکام ہی معلوم ہوتی ہے؛ مگر اندیشوں سے باخبر کرنا اور باخبر رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ دانشمندی کی علامت ہے بقول شاعر مشرق:

امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے

اس کرنسی کی خریداری یا شراکت کے بارے میں قارئین کو یہ بتا دینا ضروری ہے کہ چونکہ یہ ایک نہایت مہنگی کرنسی ہے؛ اس لئے اگر کوئی شخص مکمل ایک بٹ نہ خرید سکے تو اس کا کچھ حصہ بھی خرید سکتا ہے، اس میں شرکت کے لئے لوگوں کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف پیکیج بنائے گئے ہیں اور ہر پیکیج پر ملنے والا نفع بھی الگ الگ ہے، مثلا بٹ کوائن کا سب سے چھوٹا پیکیج گیارہ ہزار کا ہے، اس پر ملنے والی رقم ہر ماہ 500 سے 1000 تک متوقع ہے، دوسرا پیکیج 41000 روپئے کا ہے اس پر ملنے والا نفع ہر 21 دن میں 3000 سے 4000 تک ہے، تیسرا پیکیج 78000 روپئے کا ہے اس پر ملنے والا نفع ہر 19 دن میں 6000 سے 8000 تک ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اگر کوائن کی قیمت کم ہوگئی تو آپ کو اس سے بھی کم نفع مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی نہ ملے، اس لئے نفع و نقصان دونوں پہلو اس میں موجود ہیں۔ اس وقت کرپٹو کرنسی کی جو عام نوعیت ہے وہ یہی ہے جو اس پوری تحریر میں بیان ہوئی، ابھی اس سلسلے میں کوئی متعین شرعی نقطہ نظر قائم نہیں کیا گیا ہے، لیکن جلد ہی قارئین کو حکم شرعی سے مطلع کیا جائے گا ۔

احقر نے چونکہ ذاتی طور پر اس کی حقیقت کو خوب سمجھنے اور قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ اپنی تحقیق کی روشنی میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شرعی نقطۂ نظر سے اس کرنسی کا حکم یہ ہوگا کہ جن ممالک نے اس کرنسی کو قبول کرلیا ہے اور اپنے باشندگان کو اس کے لین دین کی اجازت دے دی ہے، ان کے لیے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری کے درجے میں ہوگا، اور اس کی خریداری اور لین دین سب درست ہوگا، البتہ وہ ممالک جنہوں نے اس کو بطور کرنسی قبول نہیں کیا ہے اور خواہ اپنے باشندگان کو صراحتاً اس کی خریداری سے منع کردیا ہے یا منع نہ کیا ہے ان کے لئے یہ ثمن عرفی یا ثمن اعتباری نہیں ہوگا، اور ان کے لئے اس کی خریداری درست نہیں ہوگی انڈیا نے چونکہ اس کو کرنسی نہیں مانا ہے اور اپنے ملک کے لئے قبول نہیں کیا ہے اس لیے اس کی خریداری درست نہیں ہے۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

قلم: محمد زبیر الندوی
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا